Moral Stories Urdu|Hindi, Ikhlaqi Kahaniyan

                     بیوہ عورت اور ڈاکو کی کہانی




فیروز یمن کا ایک مشہور ڈاکو تھاوہ آتے جاتے قافلوں کو لوٹتا اور مزاحمت کرنے پر جان سے مار دیتا اس کے لئے ایک معمولی سی بات تھی ایک دن اس نے ایک قافلہ لوٹا تو اس کی نظر ایک کمسن بچی پر پڑی  فیروز نے جب اس کے باپ سے دینار چھینے اور واپس جانے لگا۔ توبچی نے کہا کی ایک نہ ایک دن ضرور مرنا ہے اپنی عمر کے حساب سے بچی نے  یہ بہت بڑی بات کی تھی اس کی یہ بات فیروز کے دل پر اثر کر گئی ۔ فیروز نے اس وقت یہ پیشہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اس نے قافلے کو سارا سامان واپس کر دیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ
کہ اپنے اپنے گھر واپس چلے جاؤ جب سب ڈاکو اپنے اپنے گھر واپس چلے گئے تو فيروز ایک مسجد کی طرف روانہ ہوا کئی گھنٹے  مسجد میں اپنے گناہوں کی معافی مانگتارہا ۔ پھر اسے اچانک خیال آیا کہ الله تعالی بھی مجھے اس وقت معاف کرے گا
جب اس کے بندے مجھے معاف کریں گے اس نے ایک کاغز پر ان لوگوں کی لسٹ بنائی جس کو اس نے لوٹا تھا لسٹ میں نام لکھتے لکھتے اسے ایک بیوہ عورت یاد آگئی فیروز کے پیروں تلے زمین نکل گئی وہ بھاگتا ہوا اس عورت کے گھر گیا مگر اب وہاں تالہ لگا ہوا تھا ۔
کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اب وہ عورت کہاں چلی گئی مایوس ہو کر دو اپنے گھر واپس آگیا وقت گزرتا گیا فیروز نے ایک عورت سے شادی کی اور دو سال بعد الله تعالی نے اسے ایک بیٹی سے نوازا ۔ روز مہینے میں دو دفع اس عورت کے گھر ضرور جاتا کہ شاید وہ واپس آگئی ہو۔
یا شاید کوئی آدمی اس کا پتہ بتا دیں مگر وہ ہمیشہ ناکام ہی لوٹا فیروز کے چہرے پر ہر وقت افسردگی رہتی تھی ۔ اس کی بیوی اس سے پوچھتی تھی مگر وہ خاموش رہتا اور کبھی بھی نہ بتاتا ایک دن وہ جمعه کی نماز ادا کرنے مسجد میں گیا  او نماز کے بعد خطبہ میں امام صاحب نے کہاکہ زنا ایک قرض ہے جس نے بھی یہ قرض دیا تو اسے اسی دنیا میں ہی واپس کرنا پڑے گا یہ سنتے ہی اس کے چہرے کا رنگ زرد ہو گیا وہ واپس گھر آیا اور زور زور سے رونے لگا وہ کبھی اپنی بیٹی کی طرف دیکھتا تو
کبھی اپنی بیوی کی طرف وہ کسی کو کچھ نہیں بتاسکتا تھا اس نے اپنی بیوی سے اتنا کہا کہ تم نے اپنے گھر سے باہر نہیں نکلتا اور نہ ہی میری بیٹی کو باہر جانے دینا ہے وہ جب بھی گھر سے باہر جاتا تو تالا لگا کر جاتا وہ حد سے زیادہ ڈر گیا تھا اور محتاط ہو گیا تھا

اسی طرح کئی برس گزر گئے ۔ اس کی بیٹی اب جوان ہو گئی تھی اس نے بیٹی کے لیے ایک اچھے رشتے کی تلاش کرناشروع کر دی ایک دن وہ کسی کام سے گھر واپس آیا تو اس کی بیٹی کی  طبیعت خراب ہو گئی وہ میاں بیوی بیٹی کو ایک حکیم کے پاس لے گئے۔حکیم نے جب فیروز کی بیٹی کو دیکھا تو اس پر حوس غالب آگئی ۔ اس نے فیروز اور اس کی بیوی سے کہا کہ مجھے تنھائی میں اس لڑکی کا علاج کرنا ہے فيروز حکیم سے واقف تھا کہ وہ ایک اچھا انسان ہے اس لیے وہ میاں بیوی باہر چلے گئے۔
مگر شاید اسے اس بات کاعلم نہیں تھا کہ شیطان انسان پر کسی وقت بھی غالب آسکتا ہے کیونکہ شیطان تو انسان کی تاک میں بیٹھا تھا اس نے لڑکی کو بے ہوشی کی دوا پلا کر زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا جب فیروز اور اس کی بیوی واپس آئے تو اس نے کہا کہ میں نے دوا دے دی ہے ۔
لڑکی کو جب ہوش آجاے گا تو یہ اسی وقت ٹھیک ہو جائے گی جب لڑکی کو ہوش آیا تو وہ اپنی کیفیت کسی کو بھی نہیں بتا سکتی تھی کچھ عرصہ بعد لڑکی حاملہ ہو گئی اور اس نے سب سے پہلے اپنی ماں کو یہی بتایا لڑکی کا ایک اچھے گھر میں رشتہ طے ہو چکا تھا
مگر بدقسمتی ہے جب وہ لڑکی کو دیکھنے آئے تو حاملہ حالت میں دیکھ کر نہ صرف رشتے سے انکار کر دیا بلکہ فیروز کو پورے علاقے میں بدنام کر دیا فیروز تلوار  لہراتا ہوا اپنی بیٹی کو مارنے آیا اور کہا کہ کسی کے ساتھ تو نے منہ کالا کیا۔

لڑکی نے کہا کہ مجھے کسی مرد نے چھوا تک نہیں سوائے اس حکیم کے اور وہ بھی نیم بے ہوشی کی حالت میں اس حکیم نے میری بے بسی اور مجبوری کا قانده اٹھایا ہے فیروز اس کی طرف بھاگا تو وہ گاوں چھوڑ کر جا چکا تھا ۔ فیروز ادھر ہی زمین پر بیٹھ گیا۔
اور رونے کا جب وہ گھر آیا تو اپنی بیٹی کے پیروں میں گر گیا ۔ فیروز کی بیوی نے اسے سمجھایا اور کمرے میں لے گئی ۔ فیروز نے بیوی سے کہا مجھے میرا قرض آج واپس مل چکا ہے ۔ فیروز کی بیوی نے کہا کہ میں آپ کی بات کا مطلب نہیں سمجھی تو فیروز نے کہا کہ۔
کہ آج سے پچیس سال پہلے میں اپنے آدمیوں کے سات ایک عورت کا گھر لوٹنے گیا ہم نے اس کا سارا زیور لوٹ لیا پھر میں اس عورت کی طرف بڑھاوه مجھے اللہ کا واسطہ دیتی رہی مگر میں باز نہ آیا اور اسے زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا میں اس پر بھی نہیں رکا۔
میں نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ تم بھی اپنی خواہش پوری کر لو . وہ بیوہ کچھ عرصہ بعد حاملہ ہو گئی ۔ ذلت سے بچنے کے لیے اس نے خود کشی کرنا چاہی مگر پھر سوچا کہ اپنی جان کے ساتھ ساتھ اس بچے کا قتل کیوں کروں وہ بھاگتی ہوئی شہر کے عالم کے پاس گئی۔
اور کہا کہ آج ایک جھوٹ بول کر میری پردہ پوشی کر لیجئیے عالم نے کہا کہ کون سا جھوٹ بولوں بیوہ نے کہا کہ میرے بدن میں ایک ناجائز بچہ ہے پر زبردستی کے زنا کی صورت میں وجود میں آیا ہے جب یہ بچے پیدا ہو گا تو لوگ مجھ سے ضرور پوچھنے آئیں گے کہ یہ کس کا بچہ ہے۔

تمہارے شوہر کو مرے ہوئے ایک عرصہ ہو گیا ہے ۔ میں گاؤں کے لوگوں کو آپ کے پاس بھیج دوں گی عالم نے جب عورت کی بے بسی دیکھی تو کہا ٹھیک ہے لوگوں کو میرے پاس بھیج دینا بچہ پیدا ہوا گاؤں کے لوگ عورت کے پاس آئے۔ اور کہا کہ کسی کے ساتھ منہ کالا کیا تم نے ۔ بیوہ نے کہا کہ فلاں عالم نے مجھ سے نکاح کیا ہوا ہے یہ اسی کا بچہ ہے اگر یقین نہیں آتا تو جا کے اس سے پوچھ لو عالم کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی تو لوگ تحفے لے کر عالم کے پاس مبارک دینے کے لیے جمع ہو گئے۔
 دو سال تک عالم اس عورت کو خرچ بھیجتا رہا یہ کہہ کر کے یہ میرے بچے کا  حق ہے اور میرا یہ فرض ہے کہ میں اس کی کفالت کروں مگر وہ عالم اس وقت حیران ہوا جب وہ دو سال کے جمع شدہ پیسے واپس کرنے آئی۔
یہ کہتے ہوئے کہ اب وہ پچہ اس دنیا میں نہیں رہا آپ کا مجھ پہ یہی احسان کافی ہے کہ آپ نے میری پردہ پوشی کی وہ عورت دو سال سے وہ پیسے جمع کرتی رہی اس کو واپس کرنے کے لئے اور اس نے اپنی ذات پر ایک دینار بھی خرچ نہیں کیا ۔

Comments